حوزہ نیوز ایجنسی | وہابی اہل اسلام کے بہت سے امور کو شرک سمجھتے ہیں، اُنھیں میں سے ایک بزرگانِ دین کے مزارات کی زیارت ہے. وہابیوں کو زیارت کا عمل شرک نظر آتا ہے۔ جبکہ شیعہ مسلک میں خصوصی طور پر ائمہؑ کی زیارتوں کا بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔ کچھ روایتوں میں زیارت کا ثواب ایک حج اور ایک عمرہ ہے ، تو بعض میں اس سے بھی زیادہ یعنی کئی کئی حج و عمرہ کا ثواب بیان ہوا ہے۔ ظاہر ہے وہابی فکر ان نورانی روایات میں پوشیدہ راز کو نہیں سمجھ پاتی لہٰذا ان کی ناقص توحید اور اس سے زیادہ ناقص ان کی فکر پر شیعوں پر شرک کرنے کا الزام لگاتی ہے۔ ابن تیمیہ کا یہ جملہ اس کی ایک مثال ہے:
“وَحَدَّثَنِی الثِّقَاتُ أَنَّ فِیهِمْ مَنْ یَرَوْنَ الْحَجَّ إِلَیْهَا أَعْظَمَ مِنَ الْحَجِّ إِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیقِ، فَیَرَوْنَ الْإِشْرَاکَ بِالله أَعْظَمَ مِنْ عِبَادَةِ الله، وَهَذَا مِنْ أَعْظَمِ الْإِیمَانِ بِالطَّاغُوتِ (منھاج السنة – ابن تیمیه، ج3، ص451)
مختصر یہ کہ ان وہابیوں کا اور ان کے ‘شیخ ‘ ابن تیمیہ کا اعتراض یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ کسی مخلوق کی زیارت کا ثواب ‘بیت الله’ کی زیارت سے زیادہ کا ثواب رکھے؟
اس سوال کا جواب ہم دو قسطوں میں دیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف زیارت کرنے پر ہی حج کے برابر ثواب ملتا ہے بلکہ روزانہ کے اعمال بجالانے پر بھی ‘ارحم الراحمین’ خدا حج کرنے کا ثواب عطا کرتا ہے۔ اس قسط میں ہم ان میں سے چند کا ذکر اہل تسنّن کی کتابوں سے کر رہے ہیں تاکہ وہابیوں پر حجّت قائم کر دیں۔
• ایک روز مرہ کا عمل تو یہی ہے کہ فجر کی نماز کے بعد سے طلوع شمس تک مسجد ہی میں ٹھہرنا اورپھر دو رکعت نمازپڑھنا:
انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت (ص) کا فرمان ہے “:من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة۔” (صحيح الترمذي: 586)
ترجمہ : جس نے جماعت سے فجر کی نماز پڑھی پھر خود کو ذکرِ خدا میں مشغول کر لے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے پھر وہ دو رکعت نماز پڑھے ، تو اس کے لئےمکمل حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے ۔
• یہی حدیث الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ اس طرح بھی وارد ہے ۔
“من صلَّى صلاةَ الصبحِ في جماعةٍ ، ثم ثبت حتى يسبحَ للهِ سُبحةَ الضُّحى ، كان له كأجرِ حاجٍّ و معتمرٍ ، تامًّا له حجتُه و عمرتُه” (صحيح الترغيب:469)
ترجمہ: جس نے جماعت سے فجر کی نماز پڑھی اور پھر وہیں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ اس نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو اس کے لئے حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے کے برابر ثواب ہے یعنی مکمل حج اور مکمل عمرے کا ثواب ہے۔
• اتنا ہی نہیں صرف جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی حج کا ثواب رکھتا ہے۔ صحیح مسلم میں ایک روایت کے مطابق نماز عشاء اور نماز ظہر جماعت کے ساتھ ادا کرنا بھی حج کا ثواب رکھتا ہے۔
• طبرانی اور حاکم نیشاپوری نے یہ روایت ابو امامہ سے نقل کی ہے کہ ‘من غدا الی المسجد لا یرید الا ان یتعلم خیرًا او یعلمہ کان کاجر حاج تامًا حجتہ’
جو مسجد میں صرف اس نیت سے جائے کہ کوئ نیک بات سیکھے یا کسی اور کو کوئ نیک بات سکھائے تو اس کو مکمل حج کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
• مسجد قبا میں نماز ادا کرنا بھی عمرہ کا ثواب رکھتا ہے (ابن ماجہ ١۴١٢)
• اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا حج و عمرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مجاہد فی سبیل الله ہونے کا ثواب رکھتا ہے۔
ان تمام روایات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ صرف زیارت ہی نہیں بلکہ بہت سے بظاہر چھوٹے اور روزانہ کے اعمال بھی حج کا ثواب رکھتے ہیں۔ اگر ان اعمال کے عوض حج جیسی عظیم اور دشوار عبادت کا ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے تو زیارت کے لیے اگر ‘رب الارباب’ حج کا ثواب عطا کرے تو اس پر تعجّب کیوں ہوتا ہے؟؟ جب یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا ان روزمرّہ کے اعمال کو ادا کرنے پر حج کا ثواب دیتا ہے شرک نہیں ہے پھر یہ عقیدہ کہ وہی خدا زیارت پر حج کا ثواب عطا کرتا ہے، شرک کیسے ہو سکتا ہے؟ وہابیوں کے لیے یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ ائمہ معصومینؑ کی زیارت پر جانے والا زائر یہ عمل خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے انجام دیتا ہے۔ جس طرح اوپر دیے ہوئے اعمال ‘قربة الی الله’ کی نیت کی بنا پر ہی اس عظیم ثواب کے مستحق بنتے ہیں اسی طرح زیارتِ قبورِ ائمہؑ بھی ‘قربة الی اللہ’ کی نیت کی بنا پر ہی حج و عمرہ کے ثواب کے مستحق بنتے ہیں۔